پاکستان پرالزام دھرنے کے باوجود بھارت میں سکیورٹی فیلئرکے سوالات اٹھ رہے ہیں

فوٹو: فائل

اسلام آباد: پہلگام حملے کے بعد بھارتی حکومت اورذمہ داران کو پاکستان پرالزام دھرنے کے باوجود بھارت میں سکیورٹی فیلئرکے سوالات اٹھ رہے ہیں، لوگ پوچھتے ہیں آپ نے 8 لاکھ فوج کشمیر میں تعینات کررکھی ہے تو یہ حملے کے وقت کہاں تھی۔

اس حوالے سے برطانوی خبررسان ادارے بی بی سی نے ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے جس میں پہلگام حملے میں مرنے والوں کے لواحقین اور مختلف شہروں سے لوگوں کے آرا شامل کی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پہلگام واقعہ کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر اس واقعے کے متاثرین سے متعلق بہت سی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والی خاتون شیتل کلاٹھیا کی بھی ہے۔

پہلگام حملے میں شیتل کے 44 سالہ شوہر شیلیش بھائی کلاٹھیا بھی مارے گئے تھے۔

انڈیا کے مرکزی وزیر سی آر پاٹل ریاست گجرات کے شہر سورت میں رہائش پذیر شیتل کے خاندان سے اظہار تعزیت کے لیے گئے۔ اس موقع پر شیتل اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں اور انھوں نے وزیر موصوف کے سامنے اپنے درد اور دُکھ کا کُھل کر اظہار کیا۔

شیتل نے تعزیت کے لیے آئے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے پاس بہت سی وی آئی پی کاریں ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے والوں کا کیا ہے؟ وہاں (پہلگام کا وہ علاقہ جہاں 26 افراد کو ہلاک کیا گیا) نہ تو کوئی فوجی تھا اور نہ ہی کوئی میڈیکل ٹیم۔‘

سوشل میڈیا پر شیتل کی یہ ویڈیو کافی وائرل ہوئی جس میں وہ کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پر کسی بھی سکیورٹی اہلکار کی عدم موجودگی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔

رپورٹ میں انڈین اخبارہندو کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے شخص پارس جین سے بات کی ہے جو اس حملے میں بال بال بچے تھے۔ پارس کے مطابق پہلگام میں ہونے والے حملے کا دورانیہ 25-30 منٹ تک جاری رہا۔

 پارس کا دعویٰ ہے کہ حملے کے مقام پر نہ تو کوئی پولی اہلکار موجود تھا اور نہ ہی کوئی فوجی اہلکار،حالانکہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس کا کیمپ حملے کی اِس جگہ سے سات کلومیٹر دور تھا۔

اسی طرح فوج کی راشٹریہ رائفلز (آر آر) کا کیمپ محض پانچ کلومیٹر کی دوری پر تھا۔

رپورٹ کے مطابق پہلگام میں گھوڑے اور خچر کی خدمات فراہم کرنے والوں کی تنظیم کے سربراہ عبدالواحد وانی پہلگام کے رہنے والے ہیں۔ حملے کے بعد وہ جائے وقوعہ یعنی بیسرن پہنچنے والے پہلے مقامی تھے۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس ایک گھنٹے کے بعد بیسرن پہنچی۔

صحافی اور کشمیر کے امور کی ماہر انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ جہاں تک انھیں یاد ہے انھوں نے ہمیشہ جموں و کشمیر میں فوجی اہلکاروں کی بھاری تعیناتی دیکھی ہے۔

انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1990 کی دہائی سے مجھے جموں کشمیر میں کوئی ایسی عوامی جگہ یاد نہیں ہے جہاں سکیورٹی موجود نہ ہو۔ ہر جگہ آپ کو کوئی نہ کوئی سکیورٹی اہلکار یا سکیورٹی سے متعلق انتظامات نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے اس علاقے میں سکیورٹی انتظامات کا نہ ہونا باعثِ حیرت ہے۔‘انھوں نے سوال کیا کہ حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی مبینہ حملہ آوروں کے نام کیسے منظرِ عام پر آئے؟

انھوں نے یہ سوال بھی سوال  کیا کہ متاثرین اور اُن کے اہلخانہ کی دل دہلا دینے والی تصاویر کیسے منظر عام پر لائی گئیں؟

وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ سکیورٹی فورسز کو وہاں پہنچنے میں وقت لگا، مگر دوسری جانب چند ہی گھنٹوں میں اُن کے پاس حملہ آوروں کی تصاویر موجود تھیں۔ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ اس لئےیہ تحقیقات زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد بھی کشمیر میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ واقعہ دنیا کے سب سے زیادہ ملیٹرائزڈ زون (جہاں علاقہ جہاں فوج کی بڑی موجودگی رہتی ہے) میں پیش آیا، اس لیے بڑے سوالات اٹھتے ہیں۔

رپورٹ میں دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر امیتابھ مٹو کہتے ہیں کہ ’کسی بھی صورت یہ سکیورٹی میں ایک بڑی کوتاہی تھی۔‘

رپورٹ کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ستیش کا بھی ماننا ہے کہ یہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھی۔ جنرل ستیش کہتے ہیں کہ ’کیا ہم کچھ بہتر کر سکتے تھے؟ ہاں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کوئی کوتاہی نہیں تھی، ہم بہتر انٹیلیجنس اکٹھی کر سکتے تھے۔‘

بتایا جاتا ہے کہ پہلگام میں سی آر پی ایف کی ایک کمپنی ہمیشہ تعینات رہتی ہے۔ اس کے علاوہ پہلگام میں فوج کے جوان بھی تعینات رہتے ہیں۔

یہ فوجی دستہ پہلگام بازار سے کم از کم چھ کلومیٹر دور تعینات ہے۔ دوسری جانب جائے وقوعہ سے چھ کلومیٹر دور پہلگام بازار میں سی آر پی ایف کی کمپنی تعینات تھی۔پہلگام میں ایک پولیس سٹیشن بھی ہے۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.