آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت تبادلہ کے باوجود مستقل جج نہیں بن سکتا، فیصل صدیقی

فوٹو : فائل

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ آج کی سماعت میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے اپنے دلائل مکمل کیے، جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کل سے اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

دوران سماعت فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا اور اس قانون میں صوبوں سے ججز کی تقرری کا ذکر تو ہے لیکن تبادلے کی کوئی گنجائش نہیں۔

وکیل نے موقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت تبادلہ کے باوجود مستقل جج نہیں بن سکتا، فیصل صدیقی نے کہا اگر تبادلہ کیا بھی جائے تو وہ مستقل نوعیت کا نہیں ہو سکتا، اور تبادلے پر آنے والے جج کو دوبارہ حلف اٹھانا نہیں پڑتا، یا اگر اٹھایا بھی جائے تو یہ پہلے حلف کے تسلسل میں شمار ہوگا۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی ہائیکورٹس کے ججز کی مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو کیا صورتحال ہوگی، کیونکہ بھارت میں ججز کا تبادلہ رضامندی کے بغیر بھی کیا جاتا ہے۔

اس پر جسٹس شکیل احمد کا کہنا تھا کہ اگر سنیارٹی لسٹ یکساں ہو تو تنازع ہی پیدا نہ ہو۔فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ججز کی سنیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے اور اسے راتوں رات ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا ایک غاصبانہ اقدام ہوگا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سنیارٹی کے معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا اور قانون کے عمل میں بدنیتی سے کام لیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ ججز کے تبادلے کے عمل میں چار عدالتی مراحل شامل ہوتے ہیں: تبادلے والے جج کی رضامندی، متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی رائے، اور چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری۔

اگر ان میں سے کسی ایک مرحلے میں بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ فیصلہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو تشویش کی بات تھی، لیکن عدلیہ کے مختلف فورمز سے رائے لینے کے بعد تبادلہ کیا گیا ہے۔عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.